#کشمیری
#دیوبند
#kashmiri
میدان خطابت کے شہسوار مولانا انظر شاہ مسعودی کشمیری رحمہ الله کا بہت ہی نایاب بیان جس میں قاری طیب صاحب رحمہ الله سابق مہتمم دار العلوم دیوبند بھی موجود تھے
@mohdibrahimkhanpathan63002 years agoاللہ تعالیٰ حضرت الاستاذ کی مغفرت کاملہ فرمائے انکے ساتھ رحم کا معاملہ فرمائے قبر کی منزل کو آسان فرمائے آمین ثم آمین 2
@
@mohammadafsar64242 years ago
@
@mdyusufalam27962 years agoاللہ تعالیٰ حضرت الاستاذ مرحوم کا نعم البدل عطا فرمائے۔
@
@aslamghanchi68073 years agoAamin allah unky ruhani tamjho nasib farmawy hamy aamin 6
@
@azmieggs36852 years ago
@
@abdullhameedshaikh25342 years agoاللہ تعالی حضرت الاستاذمولانا انظر شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین ثم آ مین 1
@
@abdullaqashmi15032 years agoاللہ تبارک وتعالیٰ حضرت استاد محترم صاحب کی مغفرت فر مائے درجات کو بلند فرمائے جننت الفردوس میں اعلٰ مقام عطاء فر مائے آمین 2
@
@bashirahmad87772 years agoاللہ حضرت کی قبر کو پر نور کرے اور اللہ آپ کی مغفرت فرمائے 4
@
@azmieggs36852 years agoاللہ حضرت کو جنت میں اعلی مقام عطا فرمائے
@
@maktabdarululoomsiddiqiafi10712 years agoاللہ تعالی حضرت کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے آمین ثم آمین 8
@
@tragwaltragwal36722 years agoاللہ پاک حضرت مولانا مفتی شیخ الحدیث والتفسیر صاحب رحمہ اللہ تعالی علیہ کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے آمین یا رب العالمین 2
@
@sohailshah7992 years agoAllah se dua he ya Allah Sare munafiko ko jahnnam me dalde maslake ala hajrat jindabad 6 1
@
@laeequenadvi47462 years agoحج ٢٠٢٢ کے مبارک موقع پر حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مشن اور امہ مسلمہ آدم علیہ السلام کی رحلت کے بعد ان کی اولاد شرک میں مبتلا ہوتی چلی گئی ۔ ان کی اصلاح کے لیے اللہ تعالی وقفہ وقفہ سے انبیاء علیہم السلام کو بھیجتا رہا ۔ یہ انبیاء ایک خاص قوم ملک اور ایک خاص مدت کے لیے بھیجے گئے تھے سوائے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور سوائے خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام یہ خصوصی شرف اور امتیاز حاصل ہے کہ اللہ تعالی نے آپ کو دنیا سارے انسانوں کا پیشوا بناکر توحید کے عالمگیر مشن کا آغاز کروایا جس کی تکمیل سیدنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ولادت آج سے تقریبا چار ہزار سال قبل حضرت نوح علیہ السلام کی نویں پشت میں عراق کے شہر ' ار ' میں ہوئی تھی ۔ آپ علیہ السلام نے مشرکانہ ماحول کی گھٹا ٹوپ تاریکی میں آنکھیں کھولیں ۔ آپ کے والد ایک صنم تراش اور بت ساز تھے اور نمرود بادشاہ کے دربار میں اعلی منصب پر فائز تھے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم تین قسم کے شرک میں مبتلا تھی ۔ ١ - ستارہ پرستی ٢- أصنام پرستی ٣ - سياسى شرك . ملک عراق میں تقریبا پانچ ہزار خداؤں کی پرستش کی جاتی تھی ۔ ہرگاؤں اور ہر شہر کا ایک ایک الگ محافظ خدا تھا ۔ شہر ' ار ' کا خدا ' ننار ' یعنی چاند دیوتا تھا ۔ اس کے ماتحت مختلف ضرورتوں اور حاجتوں کے لیے مختلف دیوی دیوتا بنالیے گئے تھے جو زیادہ تر آسمانی سیاروں سے منسوب تھے ۔ ان کی مورتیاں بنائی جاتیں اور ان کے آگے مراسم بندگی ادا کیے جاتے تھے ۔ملک کا اصل بادشاہ چاند دیوتا ' ننار ' تھا ۔ اس کی طرف سے ملک کا بادشاہ حکومت کرتا تھا جس کی نسبت چاند دیوتا کی طرف کی جاتی اور بادشاہ خود بھی معبودوں میں شامل ہوجاتا ۔ اس کی بھی مورتی بناکر پوجا کی جاتی تھی ۔ ایسے مشرکانہ ù میں اللہ سبحانہ تعالی نے ان کی رہنمائی کی اور حق کی سمجھ عطا کی : و لقد أتينا إبراهيم رشده من قبل و كنا به عالمين o ( الانبیاء : ٥١ ) اس سے بھی پہلے ہم نے ابراہیم کو اس کی سمجھ عطا کی تھی اور ہم اس سے خوب واقف تھے ۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان خود ساختہ جھوٹے معبودوں کا انکار کرتے ہوئے اس بات کھل کر اعلان کردیا کہ : و إذ قال إبراهيم لأبيه أزر ا تتخذ اصناما آلهة إنى اراك و قومك فى ضلال مبين o اور جب ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا " کیا تو بتوں کو خدا بناتا ہے ؟ میں تجھے اور تیری قوم کو کھلی گمراہی میں پاتا ہوں ۔۔۔۔۔۔ میں ان سب سے بیزار ہوں جنہیں تم خدا شریک ٹھیراتے ہو ، میں نے یکسو ہوکر اپنا رخ اس ہستی کی طرف کرلیا جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور میں ہرگز شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں " ۔ ابراہیم علیہ السلام اس طرح اپنی دعوت کا آغاز کیا ، حقائق کو کھول کر بیان کیا ، بتوں کی بے بسی اور لاچاری کو کھول کر ان کو سمجھایا اور پروردگار عالم کی عظمت اور اس شان و شوکت کو کو بیان کیا ۔ آپ علیہ السلام کی دعوت کی ضرب نہ صرف بتوں کی پرستش بلکہ شاہی خاندان کی حاکمیت ، پجاریوں اور اعلی طبقوں کے مذہبی ، معاشی اور سیاسی حیثیت اور ملک کے عوام کی اجتماعی زندگی پر براہ راست پرتی تھی ۔ اس لیے بادشاہ ، پجاری اور تاجر سبکے سب آپ علیہ السلام کے مخالف اور جان کے دشمن ہوگئے ۔ جاری ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی nadvilaeeque@ ...
@
@mdikram2524last yearاللہ تعالیٰ ان کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے
@
@mohammadafsar64242 years ago
Related videos for حضرت مولانا انظر شاہ کشمیری رحمۃ الله علیہ کا مسحور کن بیان Hong Kong:
حضرت ابراہیم علیہ السلام کا مشن
اور امہ مسلمہ
آدم علیہ السلام کی رحلت کے بعد ان کی اولاد شرک میں مبتلا ہوتی چلی گئی ۔ ان کی اصلاح کے لیے اللہ تعالی وقفہ وقفہ سے انبیاء علیہم السلام کو بھیجتا رہا ۔ یہ انبیاء ایک خاص قوم
ملک اور ایک خاص مدت کے لیے بھیجے گئے تھے سوائے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور سوائے خاتم الانبیاء حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ۔حضرت ابراہیم علیہ السلام یہ خصوصی شرف اور امتیاز حاصل ہے کہ اللہ
تعالی نے آپ کو دنیا سارے انسانوں کا پیشوا بناکر توحید کے عالمگیر مشن کا آغاز کروایا
جس کی تکمیل سیدنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے کی ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی ولادت آج سے تقریبا چار ہزار سال قبل حضرت نوح علیہ السلام کی نویں پشت میں عراق کے شہر
' ار ' میں ہوئی تھی ۔ آپ علیہ السلام نے مشرکانہ ماحول کی گھٹا ٹوپ تاریکی میں آنکھیں کھولیں ۔ آپ کے والد ایک صنم تراش اور بت ساز تھے اور نمرود بادشاہ کے دربار میں اعلی منصب پر فائز تھے ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قوم تین قسم کے شرک میں مبتلا تھی ۔ ١ - ستارہ پرستی
٢- أصنام پرستی ٣ - سياسى شرك . ملک عراق میں تقریبا پانچ ہزار خداؤں کی پرستش کی جاتی تھی ۔ ہرگاؤں اور ہر شہر کا ایک ایک الگ محافظ خدا تھا ۔ شہر ' ار ' کا خدا ' ننار ' یعنی چاند دیوتا تھا ۔ اس کے ماتحت مختلف ضرورتوں اور حاجتوں کے لیے مختلف دیوی دیوتا بنالیے گئے تھے جو زیادہ تر آسمانی سیاروں سے منسوب تھے ۔ ان کی مورتیاں بنائی جاتیں اور ان کے آگے مراسم بندگی ادا کیے جاتے تھے ۔ملک کا اصل بادشاہ چاند دیوتا ' ننار ' تھا ۔ اس کی طرف سے ملک کا بادشاہ حکومت کرتا تھا جس کی نسبت چاند دیوتا کی طرف کی جاتی اور بادشاہ خود بھی معبودوں میں شامل ہوجاتا ۔ اس کی بھی مورتی بناکر پوجا کی جاتی تھی ۔
ایسے مشرکانہ ù میں اللہ سبحانہ تعالی نے ان کی رہنمائی کی اور حق کی سمجھ عطا کی :
و لقد أتينا إبراهيم رشده من قبل و كنا به عالمين o ( الانبیاء : ٥١ )
اس سے بھی پہلے ہم نے ابراہیم کو اس کی سمجھ عطا کی تھی اور ہم اس سے خوب واقف تھے ۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان خود ساختہ جھوٹے معبودوں کا انکار کرتے ہوئے اس بات کھل کر اعلان کردیا کہ :
و إذ قال إبراهيم لأبيه أزر ا تتخذ اصناما آلهة
إنى اراك و قومك فى ضلال مبين o
اور جب ابراہیم نے اپنے باپ آزر سے کہا " کیا تو بتوں کو خدا بناتا ہے ؟ میں تجھے اور تیری قوم کو کھلی گمراہی میں پاتا ہوں ۔۔۔۔۔۔ میں ان سب سے بیزار ہوں جنہیں تم خدا شریک ٹھیراتے ہو ، میں نے یکسو ہوکر اپنا رخ اس ہستی کی طرف کرلیا جس نے زمین اور آسمانوں کو پیدا کیا ہے اور میں ہرگز شرک کرنے والوں میں سے نہیں ہوں " ۔
ابراہیم علیہ السلام اس طرح اپنی دعوت کا آغاز کیا ، حقائق کو کھول کر بیان کیا ، بتوں کی بے بسی اور لاچاری کو کھول کر ان کو سمجھایا اور پروردگار عالم کی عظمت اور اس شان و شوکت کو کو بیان کیا ۔
آپ علیہ السلام کی دعوت کی ضرب نہ صرف بتوں کی پرستش بلکہ شاہی خاندان کی حاکمیت ، پجاریوں اور اعلی طبقوں کے مذہبی ، معاشی اور سیاسی حیثیت اور ملک کے عوام کی اجتماعی زندگی پر براہ راست پرتی تھی ۔ اس لیے بادشاہ ، پجاری اور تاجر
سبکے سب آپ علیہ السلام کے مخالف اور
جان کے دشمن ہوگئے ۔
جاری
ڈاکٹر محمد لئیق ندوی قاسمی
nadvilaeeque@ ...